Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”کیسی طبیعت ہے بیٹا! معید نے بتایا ہے کہ آپ کی ٹانگ میں زیادہ چوٹ آئی ہے موومنٹ نہیں ہو رہی کوئی پریشانی کی تو بات نہیں ہے ناں؟“ اماں جان کے آنے کے کچھ دیر بعد فیاض وہاں آ کر گویا ہوئے۔
”جی… جی آپ پریشان نہیں ہوں اب تکلیف معمولی ہے اور میں چل رہا ہوں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے پاؤں ٹھیک ہے۔“ خاصے موٴدب لہجے میں وہ ان سے مخاطب ہوا۔
”ارے نامعلوم کس کی نظر لگ گئی ہے میرے بچوں کو آئے دن کچھ نہ کچھ پریشانی آنے لگی ہے میرا پروردگار دشمنوں سے محفوظ رکھے۔ طغرل تم کو بھی کنی مرتبہ کہا ہے کار آہستہ چلایا کرو مگر تم کار چلاتے نہیں اڑاتے ہو یہ تو کچھ لیا دیا کام آ گیا ہے پری کا چہرہ دیکھ کر ہی میرا دل ہول کر رہ گیا تھا۔“
”کیا بہت زیادہ چوٹیں آئی ہیں پری کے اماں جان؟“
”مجھ سے پوچھ رہے ہو پری کے بہت زیادہ چوٹیں آئیں ہیں واہ… میرے بیٹے شاباش ہے بھئی تم جیسا باپ بھی کہاں ہوگا؟“ ان کے استفسار پر وہ چونک کر سخت لہجے میں گویا ہوئیں۔


”یہاں بھتیجے کی طبیعت پوچھنے آ گئے وہاں بیٹی کی مزاج پرسی تم سے نہ ہو سکی۔ تم نے اپنی سگی بیٹی کو غیروں سے زیادہ غیر کر دیا ہے۔“
”رات میں آیا تھا اماں جان ،آپ اور پری سو رہی تھیں۔“ ان کی دھیمی آواز میں خجالت تھی۔
طغرل نے ان کے چہرے پر شرمندگی کے ساتھ شفقت بھی محسوس کی تھی۔ وہ ایک عرصے پری کو اگنور کرتے آ رہے تھے اور اب ان کے اندر جب پدرانہ محبت بیدار ہوئی تو انہوں نے اپنے اور پری کے درمیان ایک بڑا فاصلہ محسوس کیا تھا جس کو وہ چاہتے بھی ختم نہیں کر پا رہے تھے۔
”اب تو جاگ رہی ہے وہ جا کر اب حال معلوم کر آؤ تاکہ وہ بچی بھی خوش ہو جائے کہ اس کا باپ کچھ خیال کرتا ہے اس کا بھی۔“
”جی اماں بہتر میں آپ کے ساتھ ہی چلوں گا۔“ وہ قصداً مسکرا کر گویا ہوئے۔
”آج آفس جانے کی ضرورت نہیں ہے کبھی لنگڑاتے ہوئے چلے جاؤ۔ میں آج فراز اور مذنہ کو فون کروں گی وہ تمہیں اپنے پاس بلائیں یا خود یہاں آکر رہیں میں اب تمہاری دیکھ بھال نہیں کر سکتی۔
”دادی جان آپ مجھ سے اتنی عاجز آ گئی ہیں؟“ وہ ان کی باتیں سن کر خفگی بھرے انداز میں بولا۔
”ارے بیٹا! یہ بھی اماں کے پیار کا انداز ہے آپ مائنڈ مت کرو ،حقیقت یہ ہے اماں آپ کے بغیر رہ نہیں سکتی ہیں۔“ فیاض نے مسکراتے ہوئے طغرل نے کہا۔
”دوپہر کو کھانے میں کیا کھاؤ گے بتاؤ مجھے۔“
”میں نے صباحت سے نرگسی کوفتے اور مٹر پلاؤ پکانے کا کہا ہے آپ اپنی کوئی پسندیدہ ڈش بتا دیجئے وہ بھی پک جائے گی۔
“ ہمیشہ کی طرح مسکرا کر انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔
”آج یہی کھائیں گے چچا جان ساتھ پڈنگ بنوا لیجئے گا۔“
###
ماہ رخ کے انکار نے اس کو ششدر کر دیا تھا وہ دم بخود تھا۔
”میں تم سے شادی نہیں کر سکتی اعوان پلیز مجھے معاف کر دینا ،تم نے جو مجھ پر احسانات کئے ہیں ان کا قرض میں کبھی نہیں اتار سکوں گی تم میرے مسیحا ہو نجات دہندہ ہو میں تاحیات ممنون رہوں گی۔
”تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو ،پھر وہ محبت نہیں تو کیا تھی جو تمہیں میرے قریب لے کر آئی تھی۔ یاد کرو کالج کے دنوں کو جب…!“
”سب یاد ہے اعوان! کچھ نہیں بھولی میں۔“ وہ پست آواز میں بولی۔”تمہیں مجھ سے محبت نہیں تھی تو تم نے مجھ سے دوستی کیوں کی تھی؟“
”تم کو معلوم ہے سب کچھ پھر بھی سننا چاہتے ہو تو سنو ،میں ایک غریب سبزی فروش کی بے حد حسین و جمیل بیٹی تھی اور اٹھتے بیٹھتے مجھ کو یہ احساس دلایا جاتا تھا کہ میں شہزادی ہوں اور مجھے کسی محل میں ہونا چاہئے تھا بس یہ باتیں مجھے احساس کمتری میں مبتلا کرتی گئیں۔
جیسے جیسے میں عمر کی سیڑھیاں چڑھتی گئی اپنے گھر ،لوگوں اور ماحول سے نفرت و بغاوت میرے اندر اترنے لگی تھی تم سے دوستی میں نے دولت حاصل کرنے کیلئے کی تھی راتوں رات امیر بن جانے کی خواہش بڑی زور آور تھی اور ان ہی خواہشوں کی تکمیل میں ،میں سب کھوتی چلی گئی اور پھر سب کچھ کھوتا ہی چلا گیا۔“
”مجھے بھی کھونا چاہتی ہو ماہ رخ ،تمہیں مجھ سے محبت نہ سہی مگر میں تم سے پیار کرتا ہوں ،تم میری زندگی میں آؤ یہ حسرت ہے میری ،تم کو اپنا بنانے کی خواہش نے ہی مجھے نگر نگر گھمایا تھا اب میں نے تم کو کھوج نکالا ہے تو کیسی دل توڑنے والی باتیں کر رہی ہو۔
“ وہ کاسائے دل لئے اس کے سامنے جھک گیا۔
”خواہشوں کے پیچھے بھاگنے والوں کا انجام میرے جیسا ہوتا ہے اعوان، خواہشوں کا نامراد رہنا ہی بہتر ہے جب آرزوئیں پوری ہو جائیں تو تشنگی حد سے سوا ہو جاتی ہے اور ہم پچھتاتے ہیں یہ سوچ کر کہ یہ تھیں وہ آرزوئیں یہ ہیں وہ خواہشیں جن کو پانے کیلئے اندھا دھند بھاگتے رہے اس وقت پوری شدت سے پانے کا نہیں کھونے کا احساس ہوتا ہے اور وہ احساس بڑا درد انگیز اور اذیت ناک ہوتا ہے۔
”ہم مل کر بھی نہیں مل پائیں گے ماہ رخ ہماری چاہت ملن نہ پا سکے گی میں نے دل سے چاہا تمہیں اور چاہتا رہوں گا۔“ ماہ رخ کے لہجے میں ساگر جیسی گہرائی تھی اس کی آواز ہر قسم کے جذباتی پن سے مبرا تھی وہ بے لچک و مضبوط لہجے میں بات کر رہی تھی اور اعوان نمک کی مانند ڈھلتا جا رہا تھا اس کی آواز میں تڑپ تھی۔
”مجھ جیسی گناہ گار عورت تمہاری چاہت کے قابل کہاں رہی ہے۔
”ایسا مت کہو ماہ رخ میرے لئے تم آج بھی پہلے کی طرح ہی پاک و صاف ہو مجھے تمہارے ماضی سے کوئی سروکار نہیں ہے تم حال میں میرے پاس ہو اور مستقبل میں بھی میں تمہیں اپنے ساتھ دیکھنا چاہتا ہوں۔“
”یہ ممکن نہیں ہے میں خود کو اس لائق نہیں سمجھتی کہ کسی کی بھی بیوی کہلواؤں پلیز“ مجھے معاف کر دو ،میں تمہاری یہ خواہش پوری نہیں کر سکتی۔
مجھے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا ہے اپنے ناپاک وجود کو پاک کرنا ہے مجھے کسی ایسی جگہ پر چھوڑ آؤ جہاں میں ایسا کچھ کر سکوں جس سے میرا رب راضی ہو جائے مجھے معافی مل جائے میں یہاں نہیں رہوں گی۔“
###
آصفہ اور عامرہ اس کی عیادت کو آئی تھیں ان کو دیکھ کر صباحت اور عادلہ بھی اس کے کمرے میں آ گئی تھی عادلہ نے بڑے اچھے انداز میں اس کی طبیعت پوچھی اور خلاف توقع کچھ دیر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بیٹھی رہی۔
صباحت نے بھی سرسری طور پر اس کی طبیعت پوچھی تھی۔ وہ پری کو خاصی تھکی تھکی و اداس دکھائی دی تھیں اور یہ بات عامرہ نے اچھی طرح محسوس کرکے ان سے پوچھ لیا تھا۔
”صباحت بھابی ،طبیعت کیسی ہے آپ کی؟ بہت بدلی بدلی لگ رہی ہیں کوئی ٹینشن ہے آپ کا تو حلیہ ہی بدلا ہوا ہے وگرنہ آپ تو کبھی بھی اس طرح کے حلیے میں نظر نہیں آئی۔“ میک اپ سے بے نیاز و سادہ لباس میں ڈھیلا ڈھالا جوڑا بنائے وہ ویل آف رہنے والی صباحت سے بالکل مختلف لگ ری ہیں۔
”طبیعت کو میری کیا ہوگا عامرہ؟ بالکل ٹھیک ہوں ،حلیہ بھی میرا درست ہے بیٹیاں جوان ہو جائیں تو ماں بنی سنوری اچھی نہیں لگتی۔“ خلاف عادت ان کا لہجہ نرم ،طنز اور تلخی سے پاک تھا۔
”ارے صاحبت ،یہ تم کہہ رہی ہو واہ ،تمہیں یہ سمجھ کب سے آ گئی بھلا؟ آج تو دل خوش کر دیا تم نے میرا ایسی چھی بات کرکے۔“ اماں جان نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے استجابیہ لہجے میں کہا۔
”شکریہ اماں جان میں آپ سے معافی چاہتی ہوں بہت گستاخی کی ہے میں نے آپ کے ساتھ مجھے معاف کر دیں آپ۔“ وہ ان کے قریب آ کر گلوگیر لہجے میں کہہ رہی تھیں اماں نے جھٹ سے ان کو سینے سے لگا لیا اور شفقت سے گویا ہوئیں۔
”معافی کی کوئی بات نہیں ہے غلطیاں تم سے ہوئیں ہیں تو کچھ کوتاہیاں مجھ سے بھی سرزد ہوئی ہیں تمہارے برے برتاؤ کا جواب میں نے بھی برے برتاؤ سے دیا میں ہی درگزر سے کام لیتی تو سب اچھا ہوتا۔
”دیر آید درست آید… عادلہ ،بھابی کو فون کرو وہ آتے ہوئے مٹھائی کا ٹوکرا لے کر آئیں آج سے شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پئیں گے۔“ عامرہ نے اٹھ کر صباحت کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔ وہاں موجود سب کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے۔
عائزہ کی باتوں نے یقین کا سرا اس کے ہاتھوں میں تھما ڈالا تھا محبت کیا ہے؟ عائزہ نے طغرل کا دل اس کے آگے کھول کر رکھ دیا اور وہ ہار گئی تھی پتا ہی نہ چلا محبت کیا چیز ہے کیوں ہو جاتی ہے پہلے چپکے سے دل میں چھپ جاتی ہے اپنی جگہ بناتی ہے اور پھر کسی خاص موقع پر ظاہر ہوتی ہے اور بے بس کر ڈالتی ہے۔
کل کا صحرا آج نخلستان بن گیا تھا وسوسوں کی جگہ مسکراہٹوں نے لے لی تھی انجانی کہکشائیں ہر سو چمکنے لگی تھیں۔
”پری… تم کو طغرل بھائی سے اپنی اس حرکت پر معذرت کرنی چاہئے اس دن جو کچھ ہوا اس سب کی قصور وار صرف تم ہی تھیں۔“
”اچھا وہ اگر مجھے سیدھے طریقے سے بتاتے کہ گھر دیکھنے جا رہے ہیں تو ایسا کچھ ہونے والا نہ تھا ہیرو بننے کے چکر میں انہوں نے میرا تو فیس ہی خراب کروا دیا ناں شکر ہے اللہ تعالیٰ کا جس کی رحمت سے میرا سر اور چہرہ ٹھیک ہو گئے وگرنہ…! اس نے آئینے میں اپنے صاف و دلکش چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”اگر وہ تمہیں نہ سنبھالتے تو تم نامعلوم آج کس حال میں ہوتی۔“
”اوہ… تم کچھ زیادہ ہی طغرل کی سائیڈ لینے نہیں لگی ہو؟“ وہ عائزہ کے سامنے کھڑے ہو کر گویا ہوئی۔
”میری نیت صاف ہے پری ،بڑے کہتے ہیں نا کر بھلا تو ہو بھلا کر برا تو ہو برا… میں تمہارے اور طغرل بھائی کے رشتے کو جوڑنا چاہتی ہوں تمہارا گھر آباد کرانا چاہتی ہوں شاید اس کے بدلے میں اللہ میرا گھر بھی آباد کر دے فاخر کے دل میں میری محبت بھی جگا دے۔
“ وہ بھیگی آنکھوں سے مسکرانے لگی۔
”تم فاخر بھائی سے محبت کرنے لگی ہو ،وہ تمہیں اتنے عزیز ہو گئے ہیں۔“
”ہاں… میں خود حیران ہو نکاح کے لفظوں میں بہت طاقت ہے دو دل ایک ساتھ دھڑکنے لگتے ہیں۔ راحیل میرے زندگی سے اسی دن نکل گیا تھا اور اب تو مجھے اس کے نام سے کراہیت آتی ہے۔“
مجھے ڈر لگتا ہے عائزہ کہیں ایسا نہ ہو طغرل جس طرح مجھے پانے کی دیوانگی میں مبتلا ہے کل انہوں نے بھی مجھے چھوڑ دیا تو… بالکل اسی طرح جس طرح پاپا نے مما کو چھوڑ دیا تھا پھر کیا کروں گی میں مرد کا دل عورت سے بہت جلد اکتا جاتا ہے اور عورت دوسرے مرد کی زندگی میں داخل ہو کر بھی وہ سکون راحت نہیں پاتی۔
“ وہ عائزہ سے رخ موڑے کہہ رہی تھی۔
عائزہ دبے قدموں وہاں سے چلی گئی تھی اور وہ آکر کھڑا ہو گیا تھا۔
”میں نے مما کو دیکھا ہے ان کی آنکھوں میں حزن ہے اداسی ہے وہ مسکراتی ہیں تو ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔“ طغرل پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے خاموش کھڑا سب سن رہا تھا۔
”میری سمجھ نہیں آ رہی یہ سب کیسے ہو گیا اور کیوں ہو گیا۔
میں محبت کیلئے نہیں بنی تھی۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا میں کسی سے محبت کروں گی اور وہ بھی طغرل جیسے بندے سے یہ محبت کا عمل ازخود ہوتا ہے اس لئے کوئی چلہ کاٹنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔“
”ہوں… اور تم کو یقین دلانے کیلئے مجھے تو یقینا چلہ کاٹنا پڑے گا۔“ وہ سنجیدگی سے بولا تو اس کی آواز سن کر وہ گھبرا کر پلٹی۔
”آ… آ…آپ…“ وہ بری طرح گھبرائی۔
”جی… میں آپ کا خادم طغرل فراز۔“ وہ اس کو بوکھلاتے دیکھ کر شوخی سے گردن کو معمولی سا خم دے کر جھکا تو اس کے وجیہہ چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ در آئی۔
”یہاں عائزہ تھی وہ کہاں گئی؟“
”وہ گئی جہاں اس کو جانا تھا اور تم اتنا نروس کیوں ہو رہی ہو جو تمہارے دل میں ہے کہو میں سب سننا چاہتا ہوں۔“
”یہ اچھی حرکت نہیں ہے آپ کو میری باتیں اس طرح نہیں سننی چاہئیں تھیں۔
“ اس کو سامنے دیکھ کر وہ عجیب احساسات کا شکار ہو گئی تھی۔
”اسٹاپ اٹ پارس… میں سب بھلا کر تمہاری طرف ہر بار دوڑا چلا آتا ہوں۔ میری اہمیت ،عزت ،نفس ،میری انا مجھے بھی روکتی ہے میرا اپنا مجھ سے خفا ہے کہ میں کیوں تمہاری ہزار نفرت و بے اعتنائی کے باوجود تمہارے پاس چلا آتا ہوں کبھی سوچا ہے تم نے کیوں؟“ اس کا مسکراتا چہرہ ایک دم سنجیدہ ہو گیا تھا۔
”تم نے ہر قدم پر مجھے دھتکارا ہے میری محبت ،میری بے تکلفی کو بہت غلط الزام دیئے ،میری خلوص پر شک کرتی رہی ہو مگر میری محبت ،میرا پیار و اعتماد لمحوں کیلئے ڈگمگایا اور پھر میرے جذبوں کے آگے سب ڈھیر ہو گیا۔ پارس… محبت میں انا نہیں ہوتی ہے بے اعتمادی و بے اعتباری بھی نہیں پنپتی۔“
”آپ نے کیا مذنہ آنٹی کو راضی کر لیا ہے؟“ اس نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
”ڈیڈی کو کہہ دیا ہے وہ مما کو راضی کر لیں گے۔“
”اگر وہ راضی نہ ہوئیں تو…!“
”تم ان کی فکر کیوں کرتی ہو تم کو شادی مجھ سے کرنی ہے مما سے نہیں میں راضی ہوں تو پھر تم کو پروا کس بات کی ہے؟“ وہ زچ انداز میں گویا ہوا۔
”میں کسی پر زبردستی مسلط ہونا نہیں چاہتی۔“
”مگر میرے دل پر تو زبردستی قبضہ کیا ہے تم نے میرے خیالوں پر خود ہی مسلط ہوئی ہو ،اس کا کیا… بتاؤ؟“ وہ اس کے قریب ہوا۔
”پنک کڑھائی والے سوٹ میں وہ اسے ہی دل میں اترتی جا رہی تھی اور وہ ساری ناراضی بھلائے پرشوق نظروں سے دیکھ رہا تھا اسی لمحے معید دستک دے کر اندر آیا۔
”یہ تمہارے روٹھنے منانے سے ہم لوگ بالکل بور ہو چکے ہیں پلیز… پلیز اب آپ لوگ باہر تشریف لے آئیں آپ لوگوں کی صحت یابی کی خوشی میں باہر ایک شاندار ڈنر کا اہتمام کیا گیا ہے اور ساتھ ہی دادی کی طرف سے سرپرائز بھی ہے زبردست قسم کا؟“

   1
0 Comments